the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
ہریانہ میں جاٹ تحفظات کے لئے جاٹ برادری کے پرتشدد احتجاج میں قومی شاہراہوں ، ٹرینوں کو بند کیا گیا۔ سیکڑوں تجارتی اداروں ، سوپرمارکٹس اور دکانون، ٹرکس، کاروں کو جلاکرراکھ کردیا گیا، دہلی کو جانے والی پانی کے پائپ لائنوں کو بند کرد ینے سے دہلی میں کئی دن تک پانی کا بحران پیدا ہوگیا تھا۔ جاٹ براداری شمالی ہند بالخصوص دہلی کے نواحی ریاست میں بڑا مضبوط وجود رکھتی ہے۔ بڑے بڑے کارپوریٹ کمپنیاں اور صنعتیں ہریانہ میں قائم ہیں۔ ہندوستان کی 60%موٹر سائکلس، 50% رفریجریٹرس، کاریں یہا ں تیار ہوتی ہیں۔ پٹرولیم کی بڑی ریفئنری، سافٹ ویر کمپنیاں، ہزاروں انڈسٹری ملک کے صرف 1.4% علاقے اور 2% آبادی میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہریانہ میں جاٹ ایک زراعتی کمیونٹی ہے، دوسال سے بارش نہ ہونے اور بے موسمی شدید طوفانی بارش سے فصلیں خراب ہوگئیں، کسان سوکھے کی وجہ سے معاشی پریشانیوں میں مبتلاء ہوگئے، لیکن یہ بھی حقیقت ھے کہ ان کی نوجوان نسل کارپوریٹ کمپنیوں اور صنعتوں میں اعلی تنخواہوں پر ملازمتیں کررہے ہیں۔ فوج میں سکھ ریجمنٹ کے ساتھ جاٹ ریجمنٹ جس میں جاٹوں کو فوجی ملازمتیں دستیاب ہیں۔ جاٹ ایک خوشحال برادری اور سیاسی طور پر طاقتو ر طبقہ ہے۔

جاٹ برادری کا احتجاج اس قدر پر تشدد تھا کہ ۳۰ ہزار کروڑ کی جائداد یں ، دکانیں، کاریں ، ٹرکس جلاکر راکھ کردی گئیں،اور اس دوران پولس تماشائی بنی رہی۔ ۴دن تک احتجاجی تباہی بربادی مچاتے رہے، پرتشدد احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لئے فوج متعین کرنا پڑا۔
ملک کے مختلف بی سی طبقات میں خصوصی مراعات اور تحفظات کے لئے ہڑتالیں اور احتجاج بلند ہوتے رہتے ہیں۔ گجرات میں پٹیل برادری نے بھی تحفظات کی مانگ کرتے ہوئے پر تشدد احتجاج کیا تھا۔ پٹیل برادری بھی جاٹوں کی طرح مضبوط معاشی پوزیشن رکھتی ہے۔ گجرات اور ملک و بیرون ملک تجارت میں پٹیل برادری چھائی ہوئی ہے۔ تحفظات کے سلسلہ میں جاٹ برادری کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے۔ RSS جب اقلیتوں اور دلتوں کے تحفظات کی بات آتی ہے تو پر زور مخالفت کرتی ہے۔ RSS چاہتی ہے "کہ اقلیتوں کو دئے گئے برائے نام مراعات کو بھی ختم کردیا جائے۔ ان کا کہنا ھے کہ معاشی پسماندگی کی بنیاد پر کسی طبقے اور فرقے کو تحفظ نہیں فراہم کیا جانا چاہیے" ۔ زعفرانی طاقتیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ مختلف اکائیوں بالخصوص اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے سے ملک کے قومی مفادات کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے، لیکن جب پٹیل برادری اور جاٹ برادری کے تحفظات کے لئے پرتشدد احتجاج منظم کئے گئے تو بی جے پی سرکار نے میں نرمی دکھاتے ہوئے مسئلہ کو دبا دیا۔ ان واقعات پر جس میں ملک کی قومی املاک کا ۳۰ہزار کروڑ سے زیادہ نقصان ہوا ہے ، موہن بھاگوت اور بی جے پی کے قائدین نے ایک بیان بھی دینا گوارہ نہیں کیا۔ حکومت نے خاموشی سے مسئلہ کو میڈیا اور پارلمنٹ کے مباحث سے ہٹادیا۔ نہ دیش دروہی، غداری کے ان احتجاجوں پر مقدمات درج کئے گئے اور نہ ہی قو می مضا وات کو نقصان پہنچا نے کا ان پر الزام عا ئد کیا گیا۔

اس کے بر عکس بی جے پی سرکارنے مرکزی یونیوسٹیوں کے طلباء کے احتجاج کو قوم دشمنی ، ملک غداری کے الزامات لگاکر فولادی پنجے سے نمٹا گیا وہ بڑا افسوسناک اور قابل شرم ہے، ملک کے مرکزی اور ریاستی یونیوسٹیوں میں دوسرے طلباء تنظیموں پر RSS اپنی طلباء تنظیم ABVP کے ذریعہ حلقہ تنگ کررہی ہے۔ تمام یونیوسٹیوں پر قابض ہونے کے لئے حکومت اور پولس کام کرہی ہے۔ حیدر آباد یونورسٹی میں یعقوب میمن کی پھانسی پر کئے جانے والے احتجاج کو بہانا بنا کر ABVPاور دومرکزی وزیروں نے ۵ دلت رسرچ اسکالر کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کرکے انہیں معطل کردیا تھا، دلت رسرچ اسکالر روہت ویملادلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی۔ اس طرح JNUمیں اسکالرشپ اور دوسرے مسائل کے علاوہ افضل گرو کی تائید میں طلبا نے نعرے لگائے، یہ مرکزی سرکار کو پرداشت نہیں ہوا ۔ JNU کے طلباء قائدین کنیا کے خلاف ملک غداری کے الزامات لگا کر گرفتار کیا گیا ، جب عدالت لایا گیا تو بی جے پی کے غنڈوں ، وکیلوں اور MLA نے ان طلباء کو پولس کی موجودگی میں مار پیٹ کرکے زخمی کردیا، کنیا کے بعد عمرخالد اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ، کئی دن سے پولس ان سے سخت تفتیش کررہی ہے، ان طلباء کا ایک بڑا قصور یہ بھی تھا کہ انہوں نے گجرات میں ۲۰۰۲ میں جو خون ریز فسادات مودی کے دور حکومت میں ہوئے تھے جس میں ہزاروں معصوم مسلمان قتل کر دیا گیا تھا ان کے خلاف احتجاج بلند کررہے ہیں ، ان کا کہناہے کہ مظلومین کو انصاف ملنا چاہیے اور ظالموں کو سخت سزا ملنی چاہیے، ان کی نظر میں اصل بڑا ملزم اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی ہے۔

RSSو بی جے پی کے لئے یہ تما م باتیں نا قابل برداشت تھیں اور کسی طرح بھی وہ حق کی ان آوازوں اور نعروں کو سننے ہرگز تیار نہیں، جب دیکھا کہ خون آلود دامن چیخ چیخ کے گواہی دے رہا ہے تو انہوں نے عشرت جہاں کے مسئلہ کو دوبارہ ایک

الگ ڈھنگ سے اٹھایا اور سابق سکریٹری وزارت داخلہ پلائی کو ایک مذبذب بیان دینے پر ابھارا اور کہا کہ عشرت جہاں ایک دہشت گرد تھی اس کے ISI سے تعلقات تھے ، سیاسی دباؤ کی بنا پر عدالت میں CBI نے اپنے اقرار نامہ میں سے عشرت جہاں کا نا م حذف کردیا تھا۔ سابق وزیر داخلہ چدمبرم نے کھل کر اس بیان کی مذمت کی اور میڈیا میں بیان دیا کہ" عشرت جہاں دہشت گرد نہیں تھی ، اس کا مودی سرکار میں فیک انکاؤنٹر کیا گیا"۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی جج صاحبان فیک انکانٹرس کے خلاف سخت نوٹ لیا تھا، بحث ختم ہوچکی تھی اب دوبارہ عشرت جہاں کی روح کا بی جے پی سرکار پیچھا کرنا چاہتی ہے تاکہ یہ بتائے کہ ہم نے ایک د ہشت گر د مسلم لڑکی کا انکاؤنٹر کرکے بڑا بہادری کا کام کیاہے۔JNU کے مسئلہ کو پسِ پشت ڈالنے کے لئے یہ مسئلہ ا ٹھا یا جا ر ہا ہے۔

ان یونورسٹی کے طلباء نے نہ ہی تشدد کا کام کیا ، نہ ہی یونیوسٹیوں کی املاک کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی سڑکوں پر عوامی احتجاج منظم



کرکے ٹرافک کا مسئلہ پیدا کیا، ان کے خلاف اتنے سنگین تعزیرات ہند کے سخت مقدمات درج کر نا یہ ثابت کرتا ہے کہ RSS ہندوتوا کی علمبردارتنظمیں کے علاوہ ملک کی کسی عوامی طاقت کو برداشت کرنا نہیں چاہتی۔ ایک جانب جامعات کے طلباء کے ساتھ یہ معاندانہ رویہ ہے دوسری جانب پٹیل و جاٹ براداری کے ہزار وں کروڑ کے نقصانات پہنچانے کے باوجود ریاستی و مرکزی حکومت نے کو ئی کا روائی نہی کی بلکہ ان پر اطمنان بخش سکوت چھایا ہوا ہے۔

بی جے پی کے زر خرید میڈیا ۹ فروری ۲۰۱۶ سے حیدرآباد یونیوسٹیوں اور JNU کے طلباء کے خلاف زبردست جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، کیا جاٹوں کا پر تشدد احتجاج اس سے زیادہ نقصان دہ اور افسوسناک نہیں تھا۔ جاٹ احتجاجیوں کو ہر طرح کی چھوٹ کس لئے دی گئی، ان کے خلاف ضابطہ کی کاروائی جاری ہے۔ حکومت کے پاس کیا جواز ہے کہ وہ ان خوفناک ، بھیانک احتجاج پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں، اگر اس طرح کا کوئی احتجاج اپنے حقوق ، عدل و انصاف کے لئے مسلمان اقلیت کرتی ہوتی تو انہیں گولیوں سے بھون دیا جاتا اور ہزاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی۔ مسلمانوں کے پر امن احتجاج کو زبردستی پر تشدد بنا کر بندوق و ڈنڈے کے زور پر پاکستانی ایجنٹ اور دیش غدار کا الزام لگاکر آوازکو کچل دیاجاتا ۔ ممبئی میں آسام فسادات کے بعد بعض مسلمانوں نے ہلکا سا احتجاج کیا تو ان کے خلاف اتنی زبردست سخت کاروائی کی گئی جس طرح سے دہشت گردوں سے نمٹا جاتا ہے۔



RSSحب الوطنی اور قوم پرستی کی ایک نئی تشریح کرہی ہے، جو RSS کے نظریات سے اتفاق رکھتا ہے وہ ہی محب وطن اور سچا قوم پرست ہے، جو RSS کے نظریات اور افکار سے اختلاف کرتا ہے وہ وطن اور قوم کا دشمن اور غدار ہے۔ اچھی قوم پرستی ، خراب قوم پرستی کی نئی تو صحا ت گھڑی گیں ٹھیک اسی طرح رواداری وہ ہی ہے جس کو زعفرانی طاقتیں رواداری قراردیتے ہیں، چاہے وہ لفٹسٹ ہوں ، سوشلیٹ ہوں یا اقلیتیں یا و دلت ہوں ، جمہوریت میں حق و انصاف کا مطالبہ کو ئی ہرگز نہیں کرسکتا، ہر روز کمزور ، پسماندہ طبقات اور مسلمانوں پر نئے الزامات لگائے جاتے ہیں اور مختلف الزامات لگاکر میڈیا میں رات دن بدنام کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے، اگرہ میں نا ئب وزیر تعلیم کیتھریا اور ایک VHP لیڈر نے دیش کے غداروں کہہ کر مسلمانوں کی طر ف اشا رہ کر تے ہو ئے پر لعن طعن کی، ایک لیڈر نے برملا کہدیا کہ مسلمان راکشس ہیں ہندؤوں کو چاہیے کہ ان کا مقابلہ کریں۔ قومی بی جے پی اور RSS کے قائدین کے روز روز کے مسلمان دشمن بیانات اور میڈیا میں لیل و نہار کبھی داعش کو لیکر ، کبھی القاعدہ کو لیکر، کبھی ISIS کو لیکر، کھبی مدرسوں کو لیکر ، کبھی لوجہاد ، کبھی بیف اور گائے کی اسمگلنگ کے نام پر ،کبھی داڑھی ، کبھی برقعہ اور کبھی مسلمانوں کے درمیان طلاق اورمسلم پرسنل لا کو لیکر سارے ملک میں ہو ا گرم کی جارہی ہے۔ عوام کے ذہنوں کو مسلمانوں کے تعلق زہر آلود بنادیا جارہا ہے۔
اس سال 2016-17 کے بجٹ میں اقلیتوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ اقلیتی بیورو پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ملک میں مسلمانوں کی تئیں بی جے پی سرکار کا یہ حال ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی مسلم اور عرب ممالک میں اپنی ساکھ بنانے اور مسلم دوست ظاہر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ظا ہر ی جھو ٹی رواداری سے د بئی میں مندر کی جگہ بھی انھو ں نے حا صل کر لی ۔

جمہوریت میں اظہار خیال کی آزادی پر نئی نئی پابندی عائد کی جارہی ہے، قومی ارتقاء اور دستور میں تمام شہریوں اور طبقات کو دئے گئے تحفظات اور آزادی کی اصل روح برقرار رکھنا ایک چیالنج بنتا جارہا ہے۔ ملک کی ترقی اور سماج کیا ایک ہی طبقہ دستور کا علمبردار اور سنتری بنا بیٹھا ۔ سیکولرازم ، مساوات ، امن و تحفظ کی تشریحات گرو گلو الکرکے نظریات و افکار کے مطابق بی جے پی سرکار متعین کرنے میں سرگرداں ہے۔

طلباء ، صحافی ، قانون دان، ادیب مصنفین ، شعراء ، اسکالرس، سائنسی ، معاشی ، سیاسی ماہرین جو RSS کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے انہیں ملک کا دشمن اور بیرونی طاقتوں کا آلہ کا ر قرار دیا جارہا ہے۔ سنستھا سنتا نن کے کارکن کھلے طور پر کئی روشن خیال ادیبوں اور صحافیوں کے قتل میں ملوث ہیں۔ اسکے باوجود بھی اس سنستھا پر حکومت کی نظر کرم ہے اور انہیں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ یہ دہشت گرد اور دیش دروہی نہیں کہلاتے، نہ ہی ان سے ہندوستانی سماج کو کوئی خطرہ ظا ہر کیا جا تا ہے۔

خطرہ تو روہت ویملا، کنیا، عمرخالد اور اسی طرح کے حق کی آواز بلند کرنے والے باہمت طلباء اور اسکالرس سے ہے۔ زعفرانی پا ر ٹیوں نے ملک کو کس موڑ اور کس ڈگر پر لاکھڑا کردیا ہے ، اگر سی طر ح ظلم و زیادتی اور من مانی حکمرانی جاری ہے گی تو ملک کے دانشور اسکالرس ، نوجوان ، غریب دلت اور بچھڑے ہوئے مظلوم طبقات اٹھ کھڑے ہونگے۔ اگر بی جے پی حکومت پر اپنی گرفت اور مضبوط کر تی ہے تو پھر ہندوستان کی جمہوریت وحریت اور انصاف پسند عوام ایک طویل جدو جہد کے لئے اٹھ کھڑے ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے ظلم و زیادتی کرنے والے سرکاروں کو کئی مرتبہ عوام نے انتخابات میں شکست فاش دی ہے ۔ غنڈوں ، فسادیوں ، قاتلوں، اشرار اور قاطعی نام نہاد قائدین اور پولس عہدداروں کو مکمل تحفظ حاصل ہورہا ہے۔ طلباء کی طرح بے قصور عوام دلت اور اقلیتں اپنی بے گناہی کی سزائیں بھگت رہے ہیں۔

جاٹ برادری کی تحفظات کے لئے کی گئی پر تشدد احتجاج سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے ، اگر و ہ زعفرانی حلقہ بگوش ہیں تو ان کے جرائم پر ان کو امن کے تمغے دئے جائیں گے۔ حکومت ان کی شرارتوں کو پیار و محبت سے قبول کرے گی اور پر وان چڑھا ئے گئے۔

از:
ناظم الدین فاروقی
M: 9246248205
E: nfarooqui1@hotmail.com

اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.